Read more


خوروز مین کے نیچے چلا جاتا ہے۔“ عامر کے ماموں بھی بہت کنجوس تھے ، مگر یہاں تو زمین کے نیچے جانے کے بعد بھی دولت کے باہر آنے کی اُمید نہ تھی ، کیوں کہ ایک کے بعد ایک یہ ساتوں ماموں ایک دوسرے کی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے ۔ ان کے پاس اللہ کا دیا اور بندوں سے چھینا ہوا بہت کر تھا مگر وہ اپنے یتیم بھانجے کی دیکھ بھال کرنا تو دور کی بات اپنے بچوں پر ہی بہت کم طرق


کرتے تھے ۔ یوں کہہ لیں کہ ایک ایک پیسہ دانت سے پکڑ کر اٹھاتے تھے


عامر کی امی سلائی وغیرہ کا کام کر کے اپنا اور عامر کا خرچ اٹھارہ تھیں مگر ان کی آمدانی اتنی نہیں تھی کہ وہ عامر کو اسکول بھیج سکتیں ۔ عامر کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس کے ساتوں ماموں ہر جمعہ کو باقاعدگی سے بیوہ بہن کی خیریت پوچھنے آتے ، زبانی ہمدردی جتاتے اور اس زبانی جمع خرچ کے بعد عام طور سے کھانا کھا کر واپس چلے جاتے ۔ عامر کو ان کے رویے پر بڑا غصہ آتا، مگر اس کی امی بہت سیدھی سادی اور نیک دل خاتون تھیں ۔ وہ کبھی شکایت کا کوئی لفظ زبان پر نہ لاتیں اور عامر کو ہمیشہ اپنے ماموؤں کا ادب واحترام کرنے کی نصیحت کرتیں۔


اس روز جمعہ تھا۔ عامر نے اپنی امی سے کچھ پیسے لیے اور ایک کھلونے والا مچھلی پکڑنے کا جال اور چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی مچھلیاں نیں۔گھر پہنچ کر اس نے صحن میں گڑھا کھودا، اس میں پانی بھرا اور مچھلیاں ڈال کر گڑھے کو ڈھک دیا۔ اس کا صحن چوں کہ کچا تھا، اس لیے اسے گڑھا کھود نے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ پھر عامر نے جال اُٹھایا اور گھر سے باہر جاتے ہوئے امی سے بولا : امی ! ماموں آئیں اور میرا پو چھیں تو کہہ دیجیے گا کہ سامنے والے جو ہر پر چھلیاں پکڑنے گیا ہے۔" عامر کے ماموں نہ صرف کنجوس، بلکہ بہت بے وقوف بھی تھے۔ عقل نام کی کوئی چیز ان کے


پاس نہ تھی ۔ جب عامر کی امی نے انھیں یہ بات بتائی تو وہ بہت حیران ہوئے اور فورا جو ہر پر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ عامر کھلونے والا جال جو ہر میں ڈالے بیٹھا ہے اور ساتھ ہی کچھ گا تا بھی جارہا ہے۔ بڑے ماموں ہنس کو بولے : ” ارے بھئی عامر میاں! جو ہر میں بھلا مچھلیاں کہاں سے آئیں؟“ اور اگر میں بھی تو اس ننھے سے جال سے کیسے پکڑو گے؟“ چھوٹے ماموں نے لقمہ دیا۔ عامر نے ماموں کی طرف دیکھا اور پھر بے پروائی سے جال کی ڈوری ہلا کر بولا: ماموں ! آپ کو پتا نہیں ، یہ جادو کا جال ہے۔ میں یہاں جال ڈالے بیٹھا ہوں اور مچھلیاں


میرے گھر پہنچ رہی ہیں ۔“ ساتوں ماموؤں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ، جیسے عامر نے انھیں کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ پھر بڑے ماموں مزہ لیتے ہوئے بولے : ” بھٹی ، ذرا ہم بھی تو دیکھیں کہ کتنی مچھلیاں پہنچیں تمھارے


گھر ؟ ہمیں تو اس گندے جو ہڑ میں مچھلیوں کے بجائے مچھروں کی فوج نظر آ رہی ہے ۔“ عامر نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا، بلکہ ماموؤں کو ساتھ لے کر گھر پہنچا۔ اس نے صحن کے گڑھے کا ڈھکن ہٹایا تو ماموؤں کے دل دھک سے رہ گئے ۔ پانی میں چھوٹی چھوٹی


رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں ۔ ایک ماموں ہکلا کر بولے : ” بیٹا یہ انوکھا جال تمھیں کہاں سے مل گیا ؟ یہ تو


بڑے کام کی چیز ہے۔ تم نے اس جو ہر میں جال ڈالا تو یہ نھی منی مچھلیاں یہاں گھر میں آگئیں! اگر ہم اسے دریا یا سمندر میں ڈال کر بیٹھیں تو ہمارے گھر میں تو بڑی بڑی مچھلیاں پہنچ سکتی ہیں ۔“ عامر نے کہا: ” ہاں ، کیوں نہیں ماموں ! ویسے یہ جال میرے ایک دوست کے والد نے


تھنے میں دیا ہے۔ بہت قیمتی چیز ہے۔“ ماموؤں نے لچائی ہوئی نظروں سے جال کو دیکھتے ہوئے کہا:'' تم ہم سے اس کی جو


چاہے قیمت لے لو اور جال ہمیں دے دو۔ دیکھونا ! تم ابھی چھوٹے ہو۔ مچھلیوں کے شکار کے لیے سمندر میں نہیں جا سکتے ۔ ہم اس جال سے زیادہ بہتر کام لے سکتے ہیں ۔“ در ٹھیک ہے ماموں! اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر ، اس جادوئی جال کی قیمت ایک ہزار ر ہے ہے ۔ عامر نے کندھے اچکا کر کہا۔


سارے ماموؤں کے منھ بن گئے ، جیسے کو نین کی گولی منھ میں گھل گئی ہو، مگر نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں نے مل کر ایک ہزار روپے عامر کو دیے اور جال لے کر گھر چل دیے۔ سب ماموؤں نے ممانیوں سے کہا: ''دیکھو، ہم مچھلی کے شکار پر جارہے ہیں ۔ مچھلیاں خود بخود گھر آجائیں گی اور تم پکاتی جانا ۔


ممانیاں حیرت سے آنکھیں پٹ پٹا کر رہ گئیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ کہیں ان کے شوہروں کے دماغ تو خراب نہیں ہو گئے ،مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش ہو گئیں کہ دیکھیں، کیا تماشا ہوتا ہے۔ ادھر سب ماموں صبح سے شام تک سمندر میں جال ڈالے بیٹھے رہے ۔ شام کو گھر آئے تو بڑی بے چینی سے بنتے مسکراتے ہوئے اپنی بیویوں سے پوچھا: ”ہاں بھئی! کتنی مچھلیاں پہنچیں؟ جلدی سے کھا نالا ؤ ۔ مچھلی کی خوش بو سے ہماری تو بھوک چمک اُٹھی ہے ۔


غصے کے مارے سب ممانیوں کا پہلے ہی بُرا حال تھا ، ماموؤں کی بات سن کر گویا پھٹ پڑیں: آپ کا دماغ تو نہیں چل گیا ! سارا دن مچھلیوں کا انتظار کرتے گزر گیا ، نہ مچھلیاں آئیں ، نہ کھانا پکا۔ مچھلی کے چکر میں کھچڑی سے بھی گئے ۔ آپ لوگ تو کہتے تھے کہ آج مچھلیوں کی بارش ہوگی ۔“


اب تو ماموں بھی غصے سے آگ بگولا ہو گئے ۔ انھوں نے جال تو ڑمروڑ کر پھینک دیا۔ پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو پاؤں پٹختے ہوئے عامر کے گھر کی طرف چل پڑے۔ اتفاق سے عامر نے ہی دروازہ کھولا۔ سب ماموں اس پر برس پڑے : ” عامرا یہ کیا مذاق کیا ہے؟ لوٹنے اور ٹھگنے کے


لیے تمھیں ماموں ہی ملے تھے ؟ مچھلی تو مچھلی ایک جھینگا تک ہمارے گھر میں نہیں آیا۔“ عامر نے کہا: 'ماموں ! آپ غصہ نہ کیجیے۔ آپ یقین کریں ، میرا جال واقعی جادو کا


تھا۔ حیرت ہے کہ آپ کے گھر مچھلیاں نہیں آئیں ۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا : " ارے ہاں ! یہ تو بتائے کہ آپ نے صحن میں گڑھا کھود کر پانی بھرا تھا؟“


ماموں یہ سن کر بڑے سٹپٹائے اور بولے : نہیں تو ۔“ عامر نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا: " جبھی تو ۔ مچھلیاں آئی ہوں گی اور تڑپ تڑپ کر واپس چلی گئی ہوں گی ، ایسی جگہ جہاں پانی نہ ہو، مچھلیاں کیسے آسکتی ہیں ؟“ بات تو ٹھیک ہے۔ سب ماموؤں نے ایک ساتھ افسوس سے سر ہلائے ۔ ان کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اب صرف پچھتاوا رہ گیا تھا۔


کچھ عرصے کے بعد عامر کو پھر ایک شرارت سوجھی۔ اس نے خرگوش کا ایک جوڑا خریدا۔ دونوں خرگوش بالکل ایک جیسے تھے ۔ ان میں کوئی فرق نہ تھا۔ پھر اس نے ایک خرگوش کو محسن میں باندھ دیا اور اپنی امی کے گلے میں جھول کر لاڈ سے بولا : ” امی ! کیوں نہ آج ہم ماموؤں اور ممانیوں کی دعوت کریں؟ آپ کھانا تیار کیجیے ۔ میں ان کو لے کر آتا ہوں ، مگر ماموؤں کو یہ مت بتائے گا کہ میں نے دعوت کی فرمایش کی تھی۔ ٹھیک ہے نا یہ کہ کر اس نے دوسرے خرگوش کو گود میں لیا اور ماموؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر کچھ دیر ممانیوں کے پاس بیٹھا ! دھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا، پھر اچانک بولا : " ارے ممانی آپ لوگ تو کبھی ہمارے گھر آتی ہی نہیں ۔ چلیں۔ آج سب کھانا ہمارے گھر چل کر کھا ئیں ۔“


ممانیاں کنجوس ماموؤں کے بھانجے کی اس فراخ دلی پر بڑی حیران ہوئیں، پھر بولیں : "مگر کی ہم سب کو تیار ہونے میں بہت وقت لگے گا اور ادھر تمھاری امی اپنا اور تمھارا کھانا تیار کر چکی ہوں گی ۔“ عامر نے کہا: ” کوئی بات نہیں۔ میں ابھی خرگوش کے ذریعے سے امی کو پیغام بھجوا دیتا ہوں کہ وہ دعوت کا انتظام کر لیں ۔ یہ کہ کر عامر نے خرگوش کے لمبے کان پکڑ کر کھڑے کیے ۔ ان میں کچھ دیر کھسر پھسر کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا ۔ خرگوش اُچھلتا کو دتا گھر سے باہر نکل گیا۔ ماموں بہت حیران ہوئے کہ بھلا خرگوش کیسے پیغام پہنچا سکتا ہے۔ انھیں اس بات کا بالکل یقین نہیں آیا۔

ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد یہ سب لوگ عامر کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ عامر کی امی دستر خوان بچھا چکی تھیں ۔ دعوت کا مکمل انتظام تھا۔ صحن کے کونے میں دوسرا ای جیسا خرگوش بندھا ہوا تھا۔ ماموں اور ممانیاں حیران رہ گئیں۔ ان کے منھ سے الفاظ نہ نکلتے تھے ۔ آخر ماموؤں نے عامر کی خوشامد کر


کے وہ خرگوش بھی عامر سے خرید لیا اور دعوت کھا کر گھر کی راولی ۔ ایک دن ماموں اپنے دوست کلیم صاحب کے ہاں بیٹھے تھے ۔ خرگوش ان کے ساتھ تھا ۔ شیخنی میں آکر بولے " چلیں کلیم صاحب! آج رات کا کھانا ہمارے گھر کھا ئیں ۔“ کلیم صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ ان لوگوں کے ہاں کھانے کے نام پر کیا پکتا ہے، چناں چہ کہنے لگے :'' بھئی تمھاری بیگمات کو پہلے سے اطلاع ہونی چاہیے کہ آج کا کھانا ہم


تمھارے گھر کھا ئیں گے ۔ ورنہ ہاں ہاں کیوں نہیں ! ابھی خرگوش کو پیغام دے کر بھیجتے ہیں ۔ یہ کہہ کر انھوں نے خرگوش کے کان میں کچھ آہستہ آہستہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا۔ کلیم صاحب نے پلکیں جھپکا کر ماموؤں کی طرف دیکھا ، جیسے انھیں ان لوگوں کے دماغوں پر شبہ ہو ۔ سب ماموں رات کو مہمان کو لے کر گھر پہنچے تو بڑے رعب سے بولے: ”ہاں بھئی


بیگم !لگا دو کھانا۔“ بیگمات کو بہت غصہ آیا کہ بغیر اطلاع کے مہمان کو گھر لے آئے اور کھانا لگانے کا حکم دے رہے ہیں۔ خیر گھر میں جو مونگ کی دال کی پتلی کھچڑی پکی تھی ، بھگار کر انھوں نے آگے رکھ دی ۔ یہ کھچڑی کھانے سے زیادہ پینے کے مطلب کی تھی ۔


کلیم صاحب نے غصے سے ماموؤں کو گھورا اور بولے : ”میاں ! ہم بہت پہلے سے ٹھوس غذا کھا نا شروع کر چکے ہیں ۔ اس دعوت سے بہتر تھا کہ ہم اپنے گھر کی روکھی سوکھی کھا لیتے اور اللہ کا شکر کرتے ۔ "


ماموؤں کا شرمندگی سے بُرا حال تھا۔ وہ سب جھنجلا کر بیویوں پر غصہ اُتارتے ہوئے

زور سے ایک ساتھ دہاڑے : ” کیا خرگوش نے ہمارا پیغام نہیں پہنچایا ؟


بیویوں نے سٹپٹا کر کلیم صاحب کی طرف دیکھا اور بولیں : ”نہیں تو ! کلیم صاحب نے بیگمات کی طرف گھوم کر پیشانی کے قریب انگلی گھما کر عجیب سا اشارہ کیا ، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ماموں آگ بگولا ہو گئے ۔ کلیم صاحب نے کھسک لینے میں ہی خیریت سمجھی اور ماموؤں کا لشکر عامر کے گھر پر چڑھائی کے لیے نکل کھڑا ہوا۔


عامر چپ چاپ ان کی پھٹکا رسنتا رہا۔ جب سب ماموؤں نے دل کی بھڑاس نکال لی تو عامر نہایت ادب سے کچھ سوچتے ہوئے بولا : " حیرت ہے، خرگوش آپ کے گھر نہیں پہنچا۔ ارے ہاں، آپ نے اسے گھر کا پتا تو اچھی طرح سمجھا دیا تھا نا؟“


ماموں چیخ پڑے : نہیں تو ، ہم نے تو بس پیغام دے کر اسے بھیج دیا تھا ۔ اوہو ماموں جان ! یہ آپ نے کیا کیا؟ وہ بے چارہ خرگوش گھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوگا یا کہیں بھٹک گیا ہو گا ۔ افسوس ! آپ لوگوں نے اتنا اچھا خرگوش گنوا دیا ۔“


اور پھر سب ہونقوں کی طرح سر ہلا کر رہ گئے اور منھ لٹکا کر واپس آگئے۔ ممانیوں نے جب مچھلی اور خرگوش والے معاملے کی پوری کہانی سنی تو بولیں : ” ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ تیز بھانجا ماموؤں کے کان کتر رہا ہے، مگر سوچنے کی


بات یہ ہے کہ آخر وہ آپ لوگوں سے کس بات کا بدلہ لے رہا ہے؟“


ممانیاں، ماموؤں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار تھیں ، نور آبات کی تہ تک پہنچ گئیں اور


بولیں : ” آج سے عامر بھی ہماری اولاد ہے۔ ہم اسے اپنے خرچ پر تعلیم دلوائیں گے ۔ جہاں ہمارے ڈیڑھ درجن بچے پڑھ رہے ہیں، وہاں ایک اور بے چارہ بھی پڑھ لے گا تو آپ لوگوں کے خزانے میں کون سی کمی آجائے گی ؟


ماموؤں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور اداسی سے سر ہلا کر ممانیوں کی تجویز سے


اتفاق کیا اور پھر وہ خوش خبری سنانے عامر کے گھر کی طرف چل پڑے۔