Read more
دادا جان ! کیا آپ سو گئے؟ سمن نے دادا سے پوچھا، جو آ نکھیں بند کیے ہوئے لیٹے تھے۔ دادا نے آنکھیں کھولے بغیر جواب دیا: سویا تو نہیں ، بس سونے والا ہوں۔“ سمن نے دادا کا بازو پکڑ کر ہلایا اور بولی : دادا جان ! آج میں ہرگز آپ کو سونے نہیں دوں
گی۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ ابھی نو بھی نہیں بجے کہ سونے لگے بچوں کی طرح۔ آج آپ کو کہانی سنانی پڑے گی ۔ کیوں یا سر تم بھی سنو گے نا کہانی ؟“
یا سر زور سے بولا : " ارے واہ! میں کیوں نہیں سنوں گا؟ میں تو کل سے دادا جان سے کہہ رہاہوں، کہانی سنائیں ، کہانی سنائیں۔ یہ سناتے ہی نہیں۔ سب بچوں کے دادا انھیں کہانیاں سناتے ہیں۔ ہمارے دادا جان بس ہمیں خراٹے سناتے ہیں۔ سمن نے یاسر کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: ہا ئیں ہائیں، تم پھر دادا جان سے بے تکلف ہونے لگے ۔ بھول گئے کہ دادا جان کان بھی کھینچ دیتے ہیں۔“
یاسر نے جواب دیا: ” کان ضرور کھینچیں ، لیکن کہانی سنائے بغیر آج دادا جان نہیں سو سکتے۔ اگر انھوں نے کہانی نہ سنائی تو میں برف کا ٹھنڈا پانی ان کے منھ پر چھڑ کوں گا تا کہ ان کو نیند نہ آئے ۔“ دادا نے آنکھیں کھولیں اور بولے ” میں تھوڑا سو گیا تھا۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی شیطان میرے کمرے میں آگیا ہے۔ ذرا میری چھڑی لاؤ، میں اسے بھگاؤں۔“
یا سر زور سے ہنسا اور بولا: 'دیکھا تمن دادا جان برف کے پانی کی بات سنتے ہی کیسے جاگ گئے ۔ اور پھر دونوں بچے دادا سے لپٹ گئے ۔ یمن نے کہا: 'دادا جان ! آج پرانی کہانی نہیں چلے یا سر نے کہا : " وہ نہیں کہ ایک بادشاہ اور اس کے چار بیٹے تھے یا وہ کہ ایک محل میں ایک پری
گی۔ بالکل نئی سنائیے ۔"ماہ نامہ ہمدرد نونہال ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۰ عیسوی
دادا اٹھ بیٹھے اور مسہری کے سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر وہ سوچتے رہے، پھر
رہتی تھی۔ آج کی کہانی سنائیے۔
ے ا ن پر ایک بال کی اور کی پانی اور بنی ہیں۔ اس کہانی کا عمل ہمارے ملک نہیں ہے، بلکہ برطانیہ سے ہے۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا: ٹھیک ہے دادا جان اسنائیے۔“ دادا نے کہانی شروع کی: 'بچو! یہ تو تمھیں معلوم ہی ہے کہ اپنی ملازمت کے سلسلے میں سات کے آٹھ سال لندن میں رہا ہوں۔ میں تمھاری دادی تمھاری پچھپو، تمھارے چاچا اور ابو ہم سب ایک نمیر میں رہتے تھے۔ اسی بلڈنگ میں ہمارے فلیٹ کے سامنے ایک کمرا تھا، جس میں ایک بوڑھا انگریز اکیا رہتا تھا۔ اس کا نام تھا مسٹر یورک ۔ اسے پینشن تو ملتی تھی لیکن یہ پینشن بس اس کے گزارے کے لیے تھی۔ اسے اپنی بہ کی خواہشوں کو دبانا پڑتا اور بہت سی ضرورتوں کو ٹالنا پڑتا تھا۔ اس نے سوچا کہ کچھ فاضل آمدنی ہونا چاہیے۔ نہ جانے مسٹر یورک کو کس نے مشورہ دیا کہ ایک دن وہ ایک میٹل ڈیکر (METAL DETECTOR) خرید لائے ۔ بھئی سمن اور یا سرا تم یوں سمجھو کہ ایک لمبی چھڑی کے نچلے سرے پر ایک آلہ لگا ہوتا ہے۔ چھڑی پکڑ کر اس آلے کو زمین پر گھماتے ہیں ۔ اگر کسی جگہ زمین کے لیے کوئی دھات ہو تو آلے میں برقی لہریں پیدا ہوں گی ۔ چھڑی میں لگا ہوا باب روشن ہو جائے گا اور کلیپ بلی آواز سنائی دے گی۔ بس وہ جگہ کھود کر وہاں دبی ہوئی دھات نکال لی جاتی ہے۔ اب یہ نکالنے والے کی قسمت ہے کہ زمین سے لو ہے اور تانبے کے ٹکڑے نکلتے ہیں یا پرانے زمانے کا قیمتی زیور یا پر ایسے سکے جن کی قیمت آج لاکھوں میں ہو۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ مسٹر یورک نے خالی وقت میں کیا کام شروع کیا کہ اپنا میٹل ڈٹیکٹر تھا ، اور آبادی سے باہر میدان میں نکل گئے اور لگے قیمتی دھات تاثی کرنے۔ بچو! یوں تو ہر جگہ ہی زمین میں بہت سی قیمتی چیز میں دفن ہوں گی لیکن برطانیہ ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ایسے دینے بہت پائے جاتے ہیں۔ اب یہ مسٹر یورک کی تقر ی تھی کہ باوجود کوش اور
محنت کے انھیں کبھی کوئی قیمتی چیز ہاتھ نہ لگی۔ الٹا یہ ہوا کہ ایک دن خزانہ تلاش کرتے کرتے وہ ایک گڑھے میں ایسا گرے کہ گھٹنے کی ہڈی تڑوا بیٹھے اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔" سمن بیچ میں بول پڑی: دادا جان ! اسی لیے تو ابو آپ کو روکتے ہیں کہ باہر زیادہ نہ گھوما
کیجیے۔ کہیں گر پڑے تو ؟“ یا سر نے بات کاٹی : سمن! میرا دل چاہتا ہے کہ دادا جان کو ایسا ڈٹیکٹ مل جائے اور پھر یہ ہمارے لیے ایک خزانہ تلاش کر لائیں، جسے میں اور تم آدھا آدھا بانٹ لیں۔“ سمن بولی: واہ بھئی وار خزانہ دادا جان تلاش کریں اور اسے بانٹ لیں تم اور میں ۔ دادا جان
کو کچھ نہ ملے؟" یا سر جھٹ سے بولا: " بات یہ ہے کمن! دادا جان اب بوڑھے ہو گئے ۔ یہ اب کیا کریں گے دولت کا ؟ نہ کچھ کھاتے پیتے ہیں، نہ نئے کپڑے بناتے ہیں۔“ دادا کو ہنسی آگئی ۔ پھر وہ بولے : ''اچھا بیچ میں بولو نہیں ۔ غور سے سنو ، ہاں تو میں بتا رہا
تھا کہ مسٹر یورک گھٹنے کی ہڈی تڑوا بیٹھے۔ کچھ دن میں وہ ہڈی جو تو گئی ، لیکن وہ اس قابل نہ رہے کہ ٹھیک سے چل سکیں یا محنت کا کوئی کام کر سکیں ۔ بس اپنے کمرے میں بستر پر لیٹے رہتے اور اپنی بوڑھی آنکھوں سے چھت کو تکا کرتے تھے ۔ اُن سے ملنے بھی کبھی کبھار ہی کوئی آتا تھا، البتہ ان کا ایک شاگرد تھا مائیکل اسٹیورٹ، جس نے اسکول میں ان سے کئی سال پڑھا تھا۔ مائیکل دو مہینے میں ان سے ملنے آتا تھا اور کرسمس کے دن تو وہ ضرور ہی آتا تھا ، چاہے کتنی ہی برف باری کیوں نہ ہو اور کتنی ہی سردی کیوں نہ پڑ رہی ہو۔ وہ مسٹر یورک کے لیے کیک بھی ضرور لاتا تھا۔ مائیکل جس کی عمر میں پینتیس سال ہو چکی تھی ، اپنی تعلیم ختم کر کے انجینئر بن چکا تھا اور ایک بڑی کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کر رہا تھا اور خوب کما رہا تھا۔ ایک دن مائیکل جسے مسٹر یورک مائک کہتے تھے ، ان سے ملنے آیا تو باتیں کرتے کرتے اس کی نظر کونے میں رکھے ہوئے میٹل ڈٹیکٹر پر پڑی۔ وہ کہنے
لگا : " مسٹر یورک ! آپ تو اب باہر جاتے ہی بہت کم ہیں اور آبادی سے باہر جانے کا تو سوال کی پیدا نہیں ہوتا، لہذا یہ ڈٹیکٹر آپ کے لیے بے کار ہے۔ آپ اجازت دیں تو میں اسے لے جاؤں ۔ خالی وقت میں یہی شغل کروں گا۔ کیا معلوم قسمت زور مارے اور " مائیکل کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی مسٹر یورک کا قہقہ کمرے میں گونجا اور دو بولے "
لے جاؤ ، لے جاؤ، میں اس کا کیا کروں گا ۔“
ٹھیک ہے، لیکن میں اس کی قیمت ادا کروں گا۔ مائیکل نے ٹشو پیپر سے ڈٹیکٹر کی گرد صاف کرتے ہوئے کہا۔
مسٹر یورک بنتے ہوئے بولے اور اگر میں نہ لوں تو ... مائیکل نے کہا: "تو پھر میرے ساتھ ایک سودا کیجیے۔ اگر میں نے واقعی اس ڈٹیکٹر کے ذریعے
سے کوئی دولت کمائی تو اس میں سے ہیں فی صد آپ کا ہوگا ۔“ مسٹر یورک نے دوسرا قہقہہ لگایا اور مائیکل کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولے : ٹھیک
ہے مائیک ! مجھے منظور ہے۔"
اگلی دفعہ مائیکل مسٹر یورک سے ملنے آیا تو چلتے وقت اس نے لفافے میں کچھ تم انھیں دیتے ہوئے کیا ” مسٹر یورک سونے کا ایک ہار اور پرانے زمانے کی چند مہریں میرے ہاتھ لگی تھیں۔ جیتنے میں فردات ہوئیں، اس کا بیس فی صد آپ کے لیے ہے۔ ہے تو چھوٹی سی رقم لیکن شاید آپ کے کام آجائے۔“ مسٹر یورک نے مائے نے مائیکل کا ہاتھ پیچھے کرتے ہوئے کہا: نہیں نہیں، ہر گز نہیں۔ وہ صرف ایک مذاق تھا۔ بھلا میں اس رقم کا حق دار کیسے بن گیا؟
مائیکل نے پھر ہاتھ آگے بڑھایا اور بولا : "مسٹر یورک ! آپ نے ڈیکٹر کی قیمت نہیں لی تھی لیتے اور میرے آپ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ میں فی صد آپ کا ہوگا۔ آگے میری تقدیر ہے اور آپ کی ز بھی۔ مٹی ہاتھ آئے یا سونا۔ آپ میرے مہربان استاد ہیں۔ پلیز مجھے اس پر مجبور نہ کیجیے کہ ہمیں چھے
معاہدے کی خلاف ورزی کروں پلیز سر! اور اس نے وہ لفافہ ان کے تکیے کے نیچے رکھا اور جانے کے لیے مڑا۔ جاتے جاتے اسے اپنے استاد کا یہ جملہ سنائی دیا: ” میں سخت حیران ہوں ۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟" اگلی بار مائیکل کو آنے میں ذرا سی دیر ہوئی۔ کئی مہینے گزر گئے ۔ ٹیلی فون بھی نہیں آیا۔ مسٹر یورک کو اس کا ست انتظار تھا،اس لیے نہیں کہ انھیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ صرف اس لیے کہ مائیکل ان کا چہیتا شاگرد تھا اور اس کے ساتھ ان کا کچھ وقت اچھا گزر جاتا تھا۔
اتوار کا دن تھا۔ مسٹر یورک صبح کے ناشتے کے بعد اخبار پڑھنے میں مصروف تھے کہ مائیکل آ گیا۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں اور چلتے وقت اس نے پھر ایک لفافہ مسٹر ورک کو پکڑاتے ہوئے کہا: "ہمپٹن کورٹ سے پرے ایک میدان میں تلاش کے دوران مجھے ہنری ہشتم کے دور کے کچھ سکے مل گئے جو میں نے اچھی قیمت میں نیلام کر دیے۔ یہ آپ کا حصہ ہے۔“ مسٹر یورک نے بغیر کسی تکلف یا انکار کے وہ لفافہ لیا اور مائیکل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے
اُسے رخصت کیا۔ مائیکل اس سے اگلی مرتبہ آیا تو ایک دل چسپ کہانی ساتھ لایا۔ میں لندن سے باہر برائن جانے والے راستے پر ایک جگہ ڈٹیکٹر گھما رہا تھا کہ ایک جگہ مجھے شبہ ہوا کہ وہاں کچھ دفن ہے۔ تھوڑی کوشش کے بعد مجھے زمین سے دھات کی ایک صندوئی ملی ۔ اسے کھولا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اُس میں پرانے زمانے کے سکے، زیورات اور کچھ قیمتی پتھر یعنی جواہرات تھے ، اس میں ایک خط بھی تھا۔ لکھا تھا: " میں زندگی بھر اپنے شوہر سے چھپا چھپا کر یہ دولت جمع کرتی رہی۔ نہ یہ شوہر کے کام آئی ، نہ بچوں کے اور خود میرے۔ اب لندن اور اس کے قریب طاعون پھیل رہا ہے۔ ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ وبا جلد ہم تک بھی پہنچ جائے گی اور میں بھی نہ بچ سکوں گی ۔ اس لیے میں اپنی یہ جمع پونچی زمین کے سپرد کر رہی ہوں۔ جس کی قسمت میں ہوگی، اُسے مل جائے گی ۔ شوہر مر چکا ، دونوں بچے چھوڑ کر چلے گئے اور یہ میرے کام بھی نہ آئی ۔ کاش! میں اسے کسی نیک کام میں، انسانی بھلائی
کے کسی کام میں خرچ کر دیتی ۔ السوس، بد نصیب لو تو سن ۔'' اس دینے کے عیلام سے جو تم کے کلی وہ بڑی رقم تھی لیکن اس پر لیکس کافی لگا، جو تم بچی ، اس کا امیں فی صد حاضر ہے۔" مسٹر یورک یہ رقم لینے سے پہلے ہی کھڑے ہو گئے اور دو گلاسوں میں اورنج جوس انڈیل کر
مائیکل کے پاس آپیٹے ،انھوں نے مائیکل سے کہا: 'مائی اکیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم دونوں اپنی اپنی رقم خورد رچ کرنے کے بجائے اسے مسٹر ٹو مسن کی خواہش کے مطابق کسی رفاہی ادارے میں دے دیں ؟ مائیکل نے لفافہ مسٹر یورک کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا : " میں اپنے حصے میں سے یہ کام بھی کرلوں گا۔ آپ اپنے حصے کی رقم تور کیے۔"
مسٹر پارک بولے "اچھا ٹھیک ہے لیکن یہ تاؤ کہ ہ میں ایکٹر مرمت کرانے پر کتنے پیسے لگے ؟" مائیکل نے فورا جواب دیا " مرمت کی کیا ضرورت تھی؟ وہ تو بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔
اب مسٹر یورک سنبھل کر بیٹھ گئے اور کچھ دیر بڑی تیز نظروں سے مائیکل کو دیکھ کر بولے : " کیسے لکن ہے؟ مزولیز نے جو میرے کمرے کی صفائی کرنے آتی ہیں، مجھے خود بتایا کہ اس آلے کی ڈسک صفائی کے دوران ان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس ڈسک کے بغیر تو وہ آلہ کام کر ہی نہیں سکتا ۔ میں حیران ہوں کہ اس بے کار آلے سے تمھیں یہ دولت ہر مہینے دو مہینے کے بعد کیسے مل جاتی ہے؟"
مائیکل ایک دم گھبرا گیا۔ اس سے کچھ جواب نہ بن پڑا اور دو ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ مسٹر یورک نے بڑی نرمی سے بولنا شروع کیا " مائک امیرے بیٹے میرے ہونہار شاگردا میرے ہمدرد دوست امیہ بتاؤ کہ تمھیں یہ ڈراما کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ میرے اور تمھارے تعلقات تو بالکل سیدھے سادے تھے ۔ ان میں کوئی نیا نہ تھا، پھر تم نے یہ کہانیاں کیوں بنا ئیں ؟"
مائیگیں نے ڈبے سے ٹشو نکال کر اپنے ماتھے کا پینا پو چھا اور ایک دو گھونٹ جوس پینے کے بعد بولا " میرے مہربان استاد ! میرے حسن میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ سے جھوٹ کہتا رہا، لیکن یقین جائیے کہ میری نیت نیک ما نیت نیک کی۔ آپ نے ایک استاد حیثیت سے ہمیشہ ہی مجھ پر ماہ نامہ ہند رو نو نهال ه ٣١ ٥٠ اکتوبر ۲۰۱۰ عیسوی
شفقت کی لیکن آپ وہ موقع یاد کیجیے ، جب میں اولیول کے امتحان سے پہلے بیمار ہو گیا تھا اور ایک ماہ تک اسکول نہ آ سکا تھا۔ امتحان سر پر کھڑے تھے اور میں کلاس میں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ میں آپ کا چہیتا شاگرد تھا ۔ آپ نے میری تعلیم کی کمی پوری کرنے کے لیے مجھے اسکول کے بعد ڈیڑھ ماو تک اضافی سبق دیئے اور میں نے امتحان میں نمایاں کام یابی حاصل کی ۔ آپ کی اس مہربانی کا میں اگلے امتحانوں میں بھی فائدہ اُٹھاتا رہا۔ آپ نے میرا مستقبل بنانے میں میری اتنی بڑی مدد کی اور معاوضے کے طور کبھی ایک چینی بھی نہ لی۔ میں نے جب اچھی ملازمت حاصل کر لی اور ہاتھ میں پیسہ آیا تو میرے ضمیر نے مجھ سے کہا: مائیک !جس انسان کی وجہ سے تو اس قابل ہوا کہ دولت میں کھیل رہا ہے ، وہ ابھی تک ایک تنگ کمرے میں پڑا تنہائی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی میں نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اتنا دے دوں کہ آپ کسی اچھی جگہ رہ سکیں ، جہاں ٹھیک سے آپ کی دیکھ بھال بھی ہو سکے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ آپ بہت خود دار انسان ہیں اور اس طرح میری مد وقبول نہیں کریں گے ۔ بس اسی لیے میں نے یہ ڈراما شروع کیا اور سوچا کہ اس بہانے میں اُس عظیم انسان کی تھوڑی سی خدمت کر دوں جس نے مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا ہے، لیکن میں معافی چاہتا ہوں کہ مجھے یہ ناٹک کرنا پڑے لیکن یقین جانیے کہ
مسٹر یورک نے شاگرد کی پیٹھ تھپتھپائی اور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولے : ” مجھے تم پر فخر ہے، لیکن میرے بیٹے ! یہ رقم میرے لیے بے کار ہے۔ میں اپنی زندگی کے اتنے سال اس کمرے میں گزار چکا ہوں کہ اب میں اس کا عادی ہو گیا ہوں ، جیسے ایک قیدی پرندہ اپنے پنجرے کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر یہ کہ مجھے یہاں ہر مدد مل جاتی ہے ۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ۔ پھر میں یہاں سے کیوں جاؤں؟“
یہ کہہ کر مسٹر یورک نے میز کی دراز سے وہ لفافے نکالے جو مختلف موقعوں پر مائیکل نے انھیں دیے تھے اور وہ مائیکل کو واپس دیتے ہوئے بولے : ” میرے بیٹے ! اس دنیا میں بے شمار
ایسے لوگ ہیں جنھوں نے دکھ ہی دکھ ہے ہیں، کبھی آرام نہیں اٹھایا ، اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارے بوڑھے استاد کا دل خوش ہو، اس کی زندگی کے آخری چند دن سکون سے گزریں تو پھر یہ رقم اپنی اور
میری طرف سے ... مائیکل بیچ میں ہی بول پڑا " میں آپ کی بات سمجھ گیا۔ ایسا ہی ہوگا، جیسی آپ کی خواہش ہے۔ مسٹر یورک! آپ ایک عظیم انسان ہیں۔ آج اس عمر میں آپ نے مجھے ایک نیا سبق دیا ہے، وہ یہ
کہ اپنی ذات اور فائدہ سے نظر ہٹا کر ذرا اپنے ارد گرد بھی نظر ڈالو۔“مائیکل اور مسٹر یورک کی کہانی ختم ہوئی تو دادا جان نے آواز دی : " کیوں بھئی بچو ! سو گئے ؟" سمن اور یاسر ایک آواز میں بولے نہیں دادا جان ابڑے مزے کی کہانی تھی ہو کیسے سکتے تھے؟"
پھر سمن نے کہا : 'دادا جان ! کیا ہم مسٹر یورک سے مل سکتے ہیں؟
دادا جان بولے : ”نہیں بیٹا ! وہ تو کب کے مرچکے ہوں گے ۔“
سمن نے کہا: "اوہ . کاش ! ہم ان سے مل سکتے ۔“
دادا نے اور کہنے لگے " کیوں بھئی تمھارا اسٹر یورک سے ملنے کو کیوں اتنادل چاور ہا ہے؟" سمن سنجیدگی سے بولی : ” کیوں کہ کیوں کہ وہ واقعی ایک عظیم انسان تھے “ ہو
0 Reviews