Read more

 ایک نونهال کی کہانی خود اس کی زبانی


نونبال سعید ایک دن دور کی ہانک رہا تھا ۔ دوسرے بھائی بہنوں کے درمیان بیٹا کہہ رہا تھا کہ میں بڑا ہو کر عالم ہوں گا، بچوں کو پڑھاؤں گا ان کے لیے مدرسے بناؤں گا۔ بڑی بہن نے کہا: تم اسکلے کیا پڑھاؤ گے ؟ سبق کیسے دو گے؟" نو نہال سعید رنجید و ہو گیا۔ اس کی زبان میں شدید لکنت تھی ۔ اپنے بڑے بھائی کے سامنے تو


وہ بول ہی نہیں سکتا تھا۔ لکھ کر دے دیتا تھا۔ آپا بھی یہ باتیں سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں آؤ میں تم کو ایک کہانی سناتی ہوں ۔ سب بچے


سکڑ کر بیٹھ گئے ۔ آپا نے کہانی سنانی شروع کی۔ ایک تھا دودھ والا ۔ دودھ کا ہنڈا سر پر رکھے جا رہا تھا۔۔ اسے گاہکوں کو صبح ہی صبح دودھ پہنچانا تھا۔ راستہ لمبا تھا۔ اس کے دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا: دودھ فروخت کر کے جو رپے ملیں گے، ان سے ایک گائے خریدوں گا۔


گائے دودھ دے گی۔ اس سے دولت کماؤں گا۔ اس دولت سے اپنا مکان بناؤں گا۔


اس مکان میں میرے بچے ہوں گے۔ میرے ملازم ہوں گے۔


ملازم جب میرے پاس آئیں گے تو میں ان کو ڈانٹوں گا۔


ان سے


کہوں گا کہ باہر جاؤ، ٹوپی پہن کر آؤ ۔ بے ادب ہو ۔ اب جاتے ہو کہ نہیں!


آپا نے بتایا کہ دودھ والا یہ سب سوچتا جا رہا تھا، جیسے ہی اس نے ملازم کو ڈانشا، اس کا سر زور سے ہل گیا اور دودھ کا ہنڈا دھڑام سے گر پڑا۔ دودھ سب کا سب بہ گیا۔ بڑے بھائی نے کہانی سن کر لقمہ دیا : ”اس کا مطلب یہ ہے کہ دودھ والا خیالی پلاؤ پکا رہا تھا۔ اس خیال میں جیسے ہی اس نے نوکر کو ڈانٹ پلائی ، گردن میں جھٹکا لگا اور دودھ کا برتن گر گیا۔


نو نہال سعید نے یہ کہانی بڑے غور سے سنی اس کے ایک ایک لفظ پر غور کیا۔ زیرک اور ذہین


تھا۔ فوراً سمجھ گیا کہ یہ اس پر چوٹ ہو گئی یعنی اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوں۔


نہ میں معلم بن سکتا ہوں اور نہ میں مدر سے بنا سکتا ہوں۔ یہ کہانی سن کر سب بچے خوب ہنسے، مگر ننھا سعید ذرا بھی نہ ہنسا۔ اسے دکھ پہنچا کہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اگر میں ہکلا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ بس اللہ میاں نے ایسا ہی بنایا ہے۔ خیالی پلاؤ کی پھبتی اسے ذرا پسند نہیں آئی ، مگر وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔ اصل میں ننھے سعید کے اندر ایک بڑا سعید بیٹھا تھا۔ اس نے کہا: "ننھے سعید ! تم پروانہ کرو۔ ان لوگوں کو کہنے دو جو چاہیں تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو تم تیار رہو کہ تم وہ سب کام کرو گے ، جو تم آج سوچ رہے ہو۔“


اندر کی آواز سن کر ننھے سعید کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ ننھا سعید پڑھتا رہا۔ قرآن حکیم


جلا


سکڑ کر بیٹھ گئے ۔ آپا نے کہانی سنانی شروع کی۔ ایک تھا دودھ والا ۔ دودھ کا ہنڈا سر پر رکھے جا رہا تھا۔۔ اسے گاہکوں کو صبح ہی صبح دودھ پہنچانا تھا۔ راستہ لمبا تھا۔ اس کے دماغ نے کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ سوچ رہا تھا: دودھ فروخت کر کے جو رپے ملیں گے، ان سے ایک گائے خریدوں گا۔


گائے دودھ دے گی۔ اس سے دولت کماؤں گا۔ اس دولت سے اپنا مکان بناؤں گا۔


اس مکان میں میرے بچے ہوں گے۔ میرے ملازم ہوں گے۔


ملازم جب میرے پاس آئیں گے تو میں ان کو ڈانٹوں گا۔


ان سے


کہوں گا کہ باہر جاؤ، ٹوپی پہن کر آؤ ۔ بے ادب ہو ۔ اب جاتے ہو کہ نہیں!


آپا نے بتایا کہ دودھ والا یہ سب سوچتا جا رہا تھا، جیسے ہی اس نے ملازم کو ڈانشا، اس کا سر زور سے ہل گیا اور دودھ کا ہنڈا دھڑام سے گر پڑا۔ دودھ سب کا سب بہ گیا۔ بڑے بھائی نے کہانی سن کر لقمہ دیا : ”اس کا مطلب یہ ہے کہ دودھ والا خیالی پلاؤ پکا رہا تھا۔ اس خیال میں جیسے ہی اس نے نوکر کو ڈانٹ پلائی ، گردن میں جھٹکا لگا اور دودھ کا برتن گر گیا۔


نو نہال سعید نے یہ کہانی بڑے غور سے سنی اس کے ایک ایک لفظ پر غور کیا۔ زیرک اور ذہین


تھا۔ فوراً سمجھ گیا کہ یہ اس پر چوٹ ہو گئی یعنی اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوں۔


نہ میں معلم بن سکتا ہوں اور نہ میں مدر سے بنا سکتا ہوں۔ یہ کہانی سن کر سب بچے خوب ہنسے، مگر ننھا سعید ذرا بھی نہ ہنسا۔ اسے دکھ پہنچا کہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اگر میں ہکلا ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ بس اللہ میاں نے ایسا ہی بنایا ہے۔ خیالی پلاؤ کی پھبتی اسے ذرا پسند نہیں آئی ، مگر وہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوا۔ اصل میں ننھے سعید کے اندر ایک بڑا سعید بیٹھا تھا۔ اس نے کہا: "ننھے سعید ! تم پروانہ کرو۔ ان لوگوں کو کہنے دو جو چاہیں تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو تم تیار رہو کہ تم وہ سب کام کرو گے ، جو تم آج سوچ رہے ہو۔“


اندر کی آواز سن کر ننھے سعید کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ ننھا سعید پڑھتا رہا۔ قرآن حکیم



حفظ کر لیا۔ حج کرنے اپنی والدہ کے ساتھ چلا گیا۔ پھر واپس آکر فارسی، عربی، کی تعلیم پر توجہ کرنے لگا۔ انگریزی بھی ذراسی پڑھ لی۔ گھر کے اور محلے کے سب بچے کھیلا کرتے تھے۔ نھا سعید بھی کھلنڈرا تھا۔ وہ بھی کھیلوں میں


بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا مگر وہ تعلیم سے غافل کبھی نہ رہا۔ رات کو پڑھتارہتا تھ اور صبح جلد اٹھ کر کتاب اس کے ہاتھ میں آجاتی تھی۔ پڑھتا رہا، پڑھتا رہا، یہاں تک کہ کالج میں داخل ہو گیا۔ ننھے سعید نے بچپن میں اپنے اندر والے کی جو آواز سنی تھی ، اس کی گونج اس کے کانوں سے کبھی ختم نہیں ہوئی۔ وہ آواز سعید کی زندگی کی ساتھی بن گئی۔


اب سعید بڑا سعید تھا۔ اس کی زبان بولنے میں رکتی تھی ، مگر وہ ہمت کا دھنی تھا۔ ہمت کر کے پڑھتا بھی رہا اور بولتا بھی رہا۔ اس نے اپنی زبان کی لکنت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بڑے سعید نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کام کر کے کار بار کی بڑی ذمے داریاں اس طرح


سنبھالیں کہ اس کا مذاق اڑانے والے حیران رہ گئے۔ سعید کے وہ دوست جنھوں نے خیالی پلاؤ کی بات کی تھی اور غریب دودھ والے کا برتن گرتے دیکھا تھا، وہ اب سعید کو دیکھ رہے تھے، مگر سعید جہاں ارادے کا پکا تھا، وہاں اس کا اخلاق بھی اچھا تھا۔ وہ سب کے ساتھ اچھائیاں کرتا رہا۔ اس کا سلوک مثالی تھا۔


مگر قدرت اس پر ایک بار پھر اسی ۔ ہندستان تقسیم ہو گیا۔ پاکستان بن گیا۔ نوجوان سعید نے ہندستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو اپنا وطن بنالیا۔ کراچی آ گیا۔ اس کے ساتھ ایک بار پھر غربت آئی۔ اس کے پاس دو وقت کھانے پینے کے پیسے بھی نہ تھے۔ اس کی بیٹی اور بیوی ساتھ تھیں، مگر غربت تھی۔ سعید بلند حوصلہ انسان تھا۔ وہ ان حالات سے ذرا نہ گھبرایا ۔ ایک اسکول جا کر وہاں نو نہالوں کو تعلیم دینا شروع کردی۔ پھر جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی ۔ لوگوں کی خدمت کو ذریعہ بنایا۔ سعید


کا مزاج خدمت کرنا تھا۔ وہ لوگوں کام آتا تھا۔ سارے ہی لوگ اس سے خوش رہتے تھے ۔ سعید کی محنت ، سعید کا جذبہ آخر رنگ لایا۔ کاربار میں اللہ تعالیٰ نے وسعت دی۔ ایک بار پھر سعید دولت مند بن گیا۔ اس نے سوچا کہ ہندستان کی دولت میرے کس کام


آئی ، یہاں کی دولت بھی کس کام آئے گی۔ اس نے خوب سوچ کر دولت ، مال اور سب کچھ اللہ کی راہ


میں وقف کر دیا اور زبردست محنت کو وسیلہ ترقی بنایا۔ رات دن کام کیا اور اب اس کی دولت ملک وملت کی دولت ہے۔


اللہ نے توفیق دی۔ خیالی پلاؤ پکانے والے نو نہال سعید نے ایک شہر آباد کر دیا۔ وہاں مدر سے ہیں، کالج ہیں ۔ یونی ورسٹی ہے۔ یہ شہر علم وحکمت ہے، مدینتہ الحکمت ۔ نونہالو! ارادے کی پختگی عزم کی بلندی ہخنت انسان سے بڑے بڑے کام کرا دیتی ہے۔ نوجوان سعید اب بزرگ سعید ہے، اور نونہالوں کا دوست ہے۔ وہ نونہالوں سے محبت کرتا


ہے، نونہال اس کو چاہتے ہیں۔